حزب اللہ لبنان کے سربراہ حجت السلام سید حسن نصر اللہ نے شہید سردار قاسم سلیمانی و شہید ابو مھدی کی شہادت کی مناسبت سے لبنان میں عوام سے اپنے خصوصی خطاب میں بیان کیا : آج ہم سب ایک ایسی مجلس میں جمع ہے جو ایک عالمی رہنما تھے۔ اور ابو مہدی جو کہ حشد الشعبی کے نائب رہنما تھے۔ اور ان کے ساتھ جو شہداء تھے، ان سب کی یاد میں اس اجتماع کا اہتمام ہو رہا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : اس واقعہ کے بعد دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوئی ہے،جمعرات کے دن حاج قاسم اپنی مراد پا گئے، یہی ان کی آرزو تھی، اور ان کی یہی خواہش اس کی جوانی سے رہی، کچھ لوگوں میں یہ جذبہ ہوتا ہے، پھر کچھ عرصے کے بعد یہ جذبہ ختم ہو جاتا ہے، جبکہ کچھ لوگوں میں یہ جذبہ قوی سے قوی تر ہو جاتا ہے، حاج قاسم اور ابو مہدی ان دوسری قسم کے افراد میں سے تھےکئی بار مجھ سے ملاقات کے دوران حاج قاسم نے مجھ سے کہا: کہ میرا دل اب اس دنیا میں تنگ ہو گیا ہے، ابھی ملاقات رب کا بڑا دل ہے میں حاج قاسم کے خاندان کو اس عظیم شہادت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
حسن نصر اللہ نے بیان کیا : ابو مہدی مہندس بھی ایسے ہی تھے، دو مہینے پہلے مجھ سے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ آخری مرحلے میں ہے، اور ختم ہونے والی ہے، اور ابھی تک مجھے شہادت نہ ملی۔
انہوں نے بیان کیا : حاج قاسم اور ابو مہندی کیوں قتل کر دئے گئے۔ کیونکہ اس وقت دنیا بالکل نئے مرحلے میں داخل ہوئی ہے،
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے تاکید کی : جمعرات کے دن حاج قاسم دمشق کے ائیرپورٹ سے رخصت ہوتے ہیں، وہاں پہ ابو مہدی اور ان کے دوست استقبال کے لئے کھڑے تھے، سوار ہونے کے بعد ان کی گاڑی پر وحشیانہ بمباری ہوتی ہے، سب کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں، کچھ دیر کے بعد امریکہ اس کا اعتراف کرتا ہے، کئی سینئر اہلکار اس کا اعتراف کرتے ہیں، خود امریکی صدر بھی کہتا ہے، کہ حکم میں نے دیا تھا۔
لہذا علی اعلان ایک جرم ہوتا ہے، جرم کرنے والے خود اعتراف کرتے ہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی شبہ نہیں۔ لہذا بات واضح ہے۔
انہوں نے وضاحت کی :کیوں اس طرح علی الاعلان جرم کیا جاتا ہے۔ احتمال ہے، کہ خفیہ طریقوں سے ناکام ہو چکے، کرمان والے واقعہ کا آپ سب کو علم ہے، کہ وہاں امام بارگاہ کے نیچے دھماکہ خیز مواد رکھ کر امام بارگاہ کو اڑانا تھا، جس میں 4000 سے زیادہ لوگوں نے شہید ہو جانا تھا، اور دوسرا احتمال یہ ہے، کہ خطے کے حالیہ واقعات نے ان کو مجبور کیا، ان کے پے در پے شکستوں نے ان کو مجبور کیا۔
حسن نصر اللہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : لہذا اب ذرا ملاحظہ ہو، تین سال ہوئے ٹرامپ کے ان تین سالوں میں سوائے ناکامیوں کے کچھ نہیں ملا، مثلا ایران میں حکومت ختم کرنا، بولٹن نے اعلان کیا تھا کہ نئے سال کی خوشی ایران میں منائیں گے، بولٹن گیا ایران میں اسلامی حکومت ابھی بھی ہے، ایران نے کوئی بھی دباو برداشت نہیں کیا، پابندیاں، علاقات ختم کرنا، خطے کی جانب سے دباو، ایران میں لوگوں کو بھوکا رکھنا، یہ سب کچھ ناکام ہوا۔ اور اگئے امریکی انتخابات سر پر اگئے۔ اب اس کا دور حکومت ختم ہونے والا ہے، لیکن کوئی بھی ایران سے اس سے ملنے نہیں گیا۔
انہوں نے تاکید کی : دوسری بات: شام میں امریکہ کی پالیسوں کی بری طرح ناکام ہوئی ہیں، اور فوجی انخلاء میں امریکہ کا تذبذب آپ سب کے سامنے ہیں۔
دوسری بات: لبنان میں امریکہ بری طرح ناکام ہوا، جو کچھ لبنان میں دباو ڈال سکتے تھے ڈالا، پابندیاں، دھمکیاں، خریدنے کی کوشش، اور اسرائیل کی بھی جرات نہ ہوئی، لہذا یہاں بھی بری طرح ناکام ہوئے۔
تیسری بات: لبنان میں امریکہ بری طرح ناکام ہوا، جو کچھ لبنان میں دباو ڈال سکتے تھے ڈالا، پابندیاں، دھمکیاں، خریدنے کی کوشش، اور اسرائیل کی بھی جرات نہ ہوئی، لہذا یہاں بھی بری طرح ناکام ہوئے۔
چوتھی بات: یمن میں ناکامی
پانچویں بات: افغانستان میں بھی ایسی ہی ناکام ہوئی طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی۔
چھٹی بات صدی کی ڈیل بھی ناکامی کا شکار ہوئی، اب کون ہے جو اس ڈیل کے بارے بولتا ہے۔
ساتویں بات: عراق میں ناکامی۔
سید مقاومت نے بیان کیا : ٹرامپ عراق میں کیا چاہتا ہے، اور خود اس بات کی وضاحت کرچکا، ٹرامپ نے کہا: عراقی تیل پر ہمارا حق ہے، جب وہ شام کا تیل جو بہت ہی کم مقدار میں ہے، اس کو نہیں چھوڑتا تو عراق کا تیل کیسے چھوڑ سکتا ہے، جب ان سے کہا وہاں تو حکومت ہے، کہا: عراق میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لہذا وہ عسکری قوت بھیج کر اس تیل کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے داعش کو لے آئے، اور کہا: یہ تیس سال تک ختم نہیں ہونگے، اور اسی آڑ میں وہ عراق پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : یہی وہ جگہ تھی، جہاں امریکہ کو سخت شکست ہوئی، عراقی عوام وہاں کی مرجعیت، اور قاسم سلیمانی اور ابو مہدی اور حشد شعبی نے داعش کو ختم کر دیا، اور امریکہ کے ہاتھوں سے دلیل چھین لی،
داعش کے خاتمے کے بعد، پارلمینٹ کے انتخابات میں اکثریت ایسے لوگ آئے، جو امریکہ کو نہیں کہتے، اور عادل عبد المہدی نے صدی ڈیل میں امریکہ کی بات نہ مانی، اور عادل عبد المہدی کی حکومت نے چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے، شام کے ساتھ بارڈر کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے بیان کیا : ان سب چیزوں نے امریکہ کو سخت تنگ کیا، اور امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچایا، اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو اکٹھا کرکے، عراق میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا، اور امریکی فوج ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی رہی۔ جبکہ ایران نے اس سخت مرحلے میں عراق کی مدد کی، لہذا انتخابات میں ٹرامپ کیا کہتا، اپنی کونسی کامیابی کا ذکر کرتا۔
انہوں نے کہا : وینزویلا، کوبا، شمالی کوریا، چین، روس، یہاں سب جگہوں پر ناکامی ہوئی، یہ خارجی سیاست ہے امریکہ کی، ہاں یہ کہتا ہے، کہ ہم کھربوں ڈالر سعودی عرب سے لا چکا، اسلحہ بھیجا، جو کھربوں ڈالر میں ہیں اور سفارت خانے کی منتقلی قدس میں ان تین امور کے علاوہ کیا کیا ہے ٹرامپ کی حکومت نے؟
لہذا اب امریکیوں نے سوچا کہ اب کیا کریں جس سے ایک دفعہ پھر امریکی قوت سامنے ائے، محور مقاومت کو ضعیف کرے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے بیان کیا : لہذا جنگ کے علاوہ ایسی کونسی چیز ہے، جس کے بعد ایک نیا مرحلہ شروع ہوا، یہاں پر ان کے سامنے حاج قاسم کا انتخاب کیا، نئے سال کے آغاز میں وہ میرے پاس تھے، اور میں نے ان سے کہا کہ امریکی اخبارات آپ پر بہت فوکس کیا جا رہا ہے، وہ ہنس پڑے۔
انہوں نے وضاحت کی : لہذا کافی سوچ بچار کے بعد امریکی جہاں بھی گئے ان کے سامنے صرف ایک ہی شخصیت سامنے آئی، وہ قاسم سلیمانی تھے، چاہے شام ہو، فلسطین ہو، عراق ہو، یمن میں، اور ایران میں، ہر جگہ ان کو قاسم سلیمانی نظر آئے۔
سید حسن نصر اللہ نے بیان کیا : ایرانیوں کے لئے قاسم سلیمانی کیا ہے، یہ امریکہ خوب جانتا ہے، اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن قاسم سلیمانی تھا، اسرائیل شام میں قاسم سلیمانی کو قتل کر سکتے تھے لیکن یہ جرات نہیں کر سکے، لہذا امریکہ کے پاس گئے، اور وہ قتل کر بیٹھے وہ بھی علی الاعلان، مقصد، عراق کی کمزوری، محور مقاومت کی کمزوری، رابطوں میں کمزوری، ایران کو ڈرانا، یہ عام قتل نہیں تھا، بلکہ دو منصبوں کے درمیان جنگ کا حصہ تھا، امریکہ خطے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، یہاں کا تیل لوٹنا چاہتا ہے، اور محور مقاومت جو امریکہ کے سامنے ڈٹا ہو ہے، کچھ ادھر ہے، کچھ ادھر ہیں، کچھ لوگوں کا پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : ایران کے حوالے، یہ جرم کیا ہے، ہدف کیا ہے؟
1 ایران کو ڈرانا، جھکانا !و مذاکرات پر مجبور کرنا !
البتہ ایران کا موقف بالکل واضح ہے، ایران کی عوام، ایران کی قیادت، ایران کی مرجعیت۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : پپمیو سے کہتا ہوں کل دیکھ لینا لوگ کیسے جنازے میں شرکت کرتے ہیں لہذا یہ ہدف ناکام رہا۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے بیان کیا : عراق کے حوالے سے: حشد شعبی کو کمزور کرنا تھا، ڈرانا تھا، لیکن عراق کا رد عمل واضح رہا، ان مقدس جنازوں میں شرکت، بغداد میں، کاظمیہ میں نجف میں کربلا میں سب جہاں آپ نے دیکھا، لوگوں نے کیسے شرکت کی ہے، لہذا وہاں بھی امریکی تیر ٹھکانے پر نہ لگا، ساری دنیا کو عراقی پارلیمنٹ کے فیصلے کا انتظار ہے، جس میں امریکی فوج انخلاء کا قانون منظور ہو۔
انہوں نے وضاحت کی : اگر یہ قانون منظور نہ ہوا تو سن لیں محور مقاومت بہ زور ان فوجوں کو نکالے گی، یہ کم از کم رد عمل ہے۔ یہاں امریکہ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ عراق کو کھو چکے ہیں، اور یہی بات امریکہ کے ایک اہم تجزیہ نگار نے بھی کی ہے۔
انہوں نے شام کے حوالے سے بیان کیا : ان شاء اللہ آخری مرحلے کی طرف سفر جاری رہے گی، یمن میں مقاومت کا سفر جاری رہے گا، ہم لبنان میں ٹرامپ ہمیں ڈرانا چاہتا تھا، پہلا رد عمل ہماری طرف سے ہم مستمر رہیں گے، کمزور نہیں ہونگے ڈریں گے نہیں، اس مقدس خون نے ہمارے حوصلے بڑھا دئے، ہم ایک بڑی فتح کے قریب ہے، ہم حاج قاسم اور ابو مہدی کے اہداف کو آگے بڑھائیں گے پوری قوت سے، عزم و حوصلے سے، ہم ان کے فرزند ہیں جنہوں نے کہا: کیا ہمیں موت سے ڈراتے ہو، ائے آزاد شدہ افراد کے فرزند ۔
حسن نصر اللہ نے تاکید کی :جہاں تک قصاص کا تعلق ہے، تو سن لیں : حاج قاسم کا موضوع مختلف ہے، قاسم سلیمانی یعنی پوری محور مقامت، یعنی قاسم سلیمانی پوری امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے، لہذا سب سے کہتا ہوں، ایران نے ہم سے کچھ نہیں طلب کیا، البتہ ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے ۔ لہذا ہم میں سے جو کوئی بھی قصاص کا کام کرے گا، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوگا، نہ یہ کہ ایران نے طلب کیا ہوگا۔
انہوں نے بیان کیا : کیا صرف مجلس عزا پر اکتفا کیا جائے، بیان دیا جائے، اور بس، نہیں، ہم سب کو اس قصاص عادل میں حصہ لینا چاہے۔
قصاص عادل کیا ہے سن لیں : بعض لوگوں کہتے ہیں قاسم سلیمانی جیسے جنرل کو مارا جائے، میں کہتا ہوں قاسم سلیمانی کا جوتا ٹرامپ اور ان سب سے بہتر ہے۔
انہوں نے وضاحت کی : لہذا قصاص عادل امریکی عسکری قوت خطے میں خطے میں امریکی وجود کا خاتمہ قصاص عادل ہے، سارے امریکی فوج اڈے، خطے میں امریکی فوج، امریکہ عوامی بالکل ٹارگٹ نہیں.لہذا عام عوام کو کچھ بھی نہ کہا جائے، صرف امریکی فوج نشانے پر ہے، یہی طبیعی قصاص ہے، کوئی بات نہیں بڑھا رہا ہے، اگر ہم خاموش رہے تو یہ بہت خطرناک ہے، لہذا جو کچھ کرسکتے ہو کرو، ہم نے قصاص لینا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا : میں کہتا ہوں امریکی فوج ہمارے علاقے سے نکلے گی، ذلیل ہو کر، ڈرے ہوئے، وہ مجاہدین اب بھی موجود ہیں جنہوں نے امریکہ کو ذلیل کیا تھا، اب بڑی تعداد میں ہیں،
انہوں نے تاکید کی : جب ان کی فوجی تابوتوں میں جائیں گے تب ان کو پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے،لہذا ان کو اپنے خطے سے نکالنا ہے، اور یہ نکلیں گے، اور قدس فتح ہوگا۔ اور جب یہ نکلیں گے تو صہیونی بھئ نکلیں گے اور بھاگیں گے۔
حجت الاسلام سید حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر کے اختمامی مرحلہ میں بیان کیا : آخری بات جاہل ٹرامپ سے کہتا ہوں، سیدہ زینب کی زبان میں کہوں گا: تم نے کونسے خون کو گرایا ہے، تم کو کیا پتہ ہے، اور یہ قصاص قاسم سلیمانی کے لئے ہے، عماد مغنیہ کے لئے، ابو مہدی کے لئے، سب مقاومین کے لئے،یہ نہ سمجھنا ہم جذباتی ہیں، بالکل اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں ائے اشرف لوگوں، ہم اس جنگ میں مستمر ہیں اور ان شاء اللہ فتح ہماری ہوگی۔